جمہوریہ کانگو کی تاریخ کے وہ حیران کن پہلو جو آپ کو ضرور جاننے چاہئیں

webmaster

A poignant, high-contrast image depicting a child miner in a dark, dusty coltan mine in the Democratic Republic of Congo, their small hands holding raw mineral ore. In the background, subtly blurred but distinctly visible, is the glow of a modern smartphone screen. The scene evokes the harsh reality of resource exploitation, conflict minerals, and the unseen human cost behind global technology, with a mood of quiet suffering and a stark socio-economic contrast.

جمہوریہ کانگو کا نام سنتے ہی میرے ذہن میں ایک ایسی سرزمین کا نقشہ ابھرتا ہے جو قدرتی خزانوں سے مالا مال ہے، لیکن بدقسمتی سے اس کی تاریخ کئی دہائیوں پر محیط سیاسی عدم استحکام، تنازعات اور انسانی دکھوں سے بھری پڑی ہے۔ میں نے جب اس خطے کی گہرائی میں جھانکنے کی کوشش کی تو مجھے احساس ہوا کہ یہ صرف خبروں میں نظر آنے والے تنازعات کا مجموعہ نہیں، بلکہ یہاں کے لوگوں کی نہ ختم ہونے والی جدوجہد، پختہ ارادے اور امید کی کہانی ہے۔ اس سرزمین نے نوآبادیاتی دور سے لے کر آج تک بے پناہ مشکلات کا سامنا کیا ہے، اور اس کے ہر موڑ پر خون اور قربانی کی داستانیں رقم ہیں۔ حالیہ عالمی صورتحال اور خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی، اس پیچیدہ پس منظر کو سمجھنے کی ضرورت کو مزید بڑھا دیتی ہے۔ آئیے اس دل دہلا دینے والی حقیقت کا گہرائی سے جائزہ لیتے ہیں۔

جمہوریہ کانگو کا نام سنتے ہی میرے ذہن میں ایک ایسی سرزمین کا نقشہ ابھرتا ہے جو قدرتی خزانوں سے مالا مال ہے، لیکن بدقسمتی سے اس کی تاریخ کئی دہائیوں پر محیط سیاسی عدم استحکام، تنازعات اور انسانی دکھوں سے بھری پڑی ہے۔ میں نے جب اس خطے کی گہرائی میں جھانکنے کی کوشش کی تو مجھے احساس ہوا کہ یہ صرف خبروں میں نظر آنے والے تنازعات کا مجموعہ نہیں، بلکہ یہاں کے لوگوں کی نہ ختم ہونے والی جدوجہد، پختہ ارادے اور امید کی کہانی ہے۔ اس سرزمین نے نوآبادیاتی دور سے لے کر آج تک بے پناہ مشکلات کا سامنا کیا ہے، اور اس کے ہر موڑ پر خون اور قربانی کی داستانیں رقم ہیں۔ حالیہ عالمی صورتحال اور خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی، اس پیچیدہ پس منظر کو سمجھنے کی ضرورت کو مزید بڑھا دیتی ہے۔ آئیے اس دل دہلا دینے والی حقیقت کا گہرائی سے جائزہ لیتے ہیں۔

قدرتی وسائل کی لعنت اور اس کے انسانی چہرے

جمہوریہ - 이미지 1
جمہوریہ کانگو دنیا کے سب سے زیادہ قدرتی وسائل رکھنے والے ممالک میں سے ایک ہے، لیکن یہ وسائل ہی اس کے لیے کسی لعنت سے کم نہیں رہے۔ ہیرے، سونا، کولٹن اور تانبے جیسے قیمتی معدنیات کی فراوانی نے اسے عالمی طاقتوں اور مقامی جنگجوؤں کی ہوس کا نشانہ بنا رکھا ہے۔ میں نے خود کئی دستاویزی فلموں میں دیکھا اور پڑھا ہے کہ کس طرح ان وسائل پر قبضے کی جنگوں نے لاکھوں بے گناہ لوگوں کی جانیں لی ہیں اور انہیں اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا ہے۔ یہ صورتحال صرف کانگو تک محدود نہیں، بلکہ اس کے اثرات عالمی سطح پر محسوس کیے جاتے ہیں، کیونکہ ہمارے روزمرہ کے استعمال میں آنے والے الیکٹرانک آلات میں استعمال ہونے والے کئی معدنیات اسی سرزمین سے آتے ہیں۔ جب بھی میں اپنا موبائل فون استعمال کرتا ہوں، تو میرے ذہن میں کانگو کے ان لوگوں کا خیال آتا ہے جنہوں نے شاید ان معدنیات کو انتہائی مشکل حالات میں نکالا ہوگا۔ یہ سوچ مجھے واقعی پریشان کرتی ہے کہ کیسے دنیا کی ترقی ایک خطے کی تباہی پر کھڑی ہے۔

افریقہ کا دل اور اس کی خون آلود دولت

کانگو کو اکثر “افریقہ کا دل” کہا جاتا ہے، لیکن یہ دل صدیوں سے خون میں ڈوبا ہوا ہے۔ نوآبادیاتی دور میں بیلجیئم کی حکمرانی نے یہاں کے لوگوں پر جو مظالم ڈھائے، وہ آج بھی اس خطے کی تاریخ کا سیاہ باب ہیں۔ ذاتی طور پر، میں نے اس بارے میں پڑھتے ہوئے شدید تکلیف محسوس کی کہ کس طرح ان کے قدرتی وسائل کو بے رحمی سے لوٹا گیا اور مقامی آبادی کو غلاموں کی طرح استعمال کیا گیا۔ آزادی کے بعد بھی، بیرونی مداخلت اور مقامی بدعنوانی نے اس ملک کو کبھی استحکام کا سانس نہیں لینے دیا۔ معدنیات کی یہ دولت، جو اصل میں اس ملک کے عوام کی خوشحالی کا ذریعہ بن سکتی تھی، اب ان کے لیے ایک نہ ختم ہونے والے مصائب کا باعث بن چکی ہے۔ میری نظر میں، یہ صرف ایک اقتصادی مسئلہ نہیں بلکہ ایک گہرا اخلاقی بحران ہے جس پر عالمی برادری کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔

کولٹن: ہمارے ہاتھوں میں ایک المناک کہانی

آج کل ہر سمارٹ فون میں استعمال ہونے والا کولٹن، جو بنیادی طور پر کانگو سے آتا ہے، اس کی کہانی واقعی دل دہلا دینے والی ہے۔ میں نے ایسے بچوں کے بارے میں پڑھا ہے جو اس خطرناک کان کنی میں شامل ہیں، جہاں انہیں بغیر کسی حفاظتی سامان کے انتہائی گہری اور خطرناک سرنگوں میں کام کرنا پڑتا ہے۔ ان کی زندگیاں داؤ پر لگی ہوتی ہیں صرف اس لیے کہ دنیا کے دوسرے کونے میں کوئی شخص ایک نیا گیجٹ خرید سکے۔ یہ حقیقت میرے اندر ایک بے چینی پیدا کرتی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم سب کو اس بارے میں سوچنا چاہیے کہ ہم جو کچھ استعمال کر رہے ہیں، اس کے پیچھے کتنی قربانیاں پنہاں ہیں۔ یہ صرف ایک معدنیات نہیں، بلکہ یہ ایک قوم کی اذیت اور عالمی لالچ کی داستان ہے۔

بے گھری اور انسانی ہمدردی کا بحران: ایک نہ ختم ہونے والی داستان

کانگو میں جاری تنازعات نے لاکھوں لوگوں کو بے گھر کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار دیکھ کر میرا دل دکھ سے بھر جاتا ہے کہ کس طرح لوگ اپنی جان بچانے کے لیے سب کچھ چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہیں۔ یہ صرف اعداد و شمار نہیں ہیں، بلکہ یہ ہر ایک فرد کی اپنی کہانی ہے، ان کی امیدیں، ان کے خواب اور ان کے پیاروں کا بچھڑ جانا۔ میں نے ایسے لوگوں کی کہانیاں سنی ہیں جو ہفتوں جنگلوں میں چھپے رہے، فاقوں سے لڑتے رہے، صرف اس لیے کہ وہ زندہ رہ سکیں۔ ان کے دکھ کی شدت کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ یہ صرف ایک علاقائی مسئلہ نہیں، بلکہ یہ ایک ایسا انسانی بحران ہے جو پوری انسانیت کو چیلنج کرتا ہے۔

اندرونی طور پر بے گھر افراد (IDPs) کی صورتحال

جمہوریہ کانگو میں اندرونی طور پر بے گھر افراد کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ میرے تجربے میں، جب میں نے ایسی تصاویر دیکھیں جن میں ہزاروں لوگ کیمپوں میں رہ رہے ہیں، جہاں پینے کا صاف پانی، خوراک اور طبی سہولیات بمشکل میسر ہیں، تو مجھے احساس ہوا کہ مصیبت کی انتہا کیا ہوتی ہے۔ ان کیمپوں میں بچے، بوڑھے اور خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں، کیونکہ انہیں تشدد، بیماریوں اور جنسی زیادتیوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ صرف پناہ کی جگہ نہیں، بلکہ یہ انسانوں کی امیدوں کا قبرستان بن چکے ہیں۔

خواتین اور بچوں پر تشدد کے اثرات

تنازعات میں خواتین اور بچے سب سے زیادہ مظلوم ہوتے ہیں۔ میں نے انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹیں پڑھی ہیں جن میں جنسی تشدد کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ سن کر اور پڑھ کر میرا دل کانپ اٹھتا ہے۔ بچوں کی بھرتی، جنسی غلامی اور اسکولوں کی بندش نے ایک پوری نسل کا مستقبل داؤ پر لگا دیا ہے۔ یہ صرف جسمانی زخم نہیں، بلکہ یہ نفسیاتی اور جذباتی زخم ہیں جو شاید کبھی بھی نہیں بھر پاتے۔ ایک معاشرے کی بنیاد اس کے بچوں اور خواتین پر ہوتی ہے، اور جب یہ بنیاد ہی کمزور کر دی جائے تو اس کے نتائج کیا ہوں گے، یہ سوچنا ہی لرزا دیتا ہے۔

بین الاقوامی کشمکش اور کانگو کی تقدیر

جمہوریہ کانگو میں ہونے والے تنازعات صرف اندرونی نہیں ہیں بلکہ ان میں بین الاقوامی عناصر کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ پڑوسی ممالک کی مداخلت، عالمی طاقتوں کے اقتصادی مفادات اور اسلحے کی سمگلنگ نے اس صورتحال کو اور بھی پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اقوام متحدہ نے امن فوج (MONUSCO) تعینات کی ہے، لیکن میں نے دیکھا ہے کہ ان کی موجودگی کے باوجود بھی تشدد مکمل طور پر ختم نہیں ہو پایا۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک ایسا کھیل ہے جہاں کانگو کے لوگ صرف مہرے ہیں۔

عالمی طاقتوں کے مفادات اور ان کا کردار

میرے نزدیک، کانگو کی صورتحال کو سمجھے بغیر عالمی سیاست کو سمجھنا ناممکن ہے۔ مغربی ممالک، خاص طور پر چین، امریکہ اور یورپی یونین، کانگو کے معدنی وسائل میں گہرا مفاد رکھتے ہیں۔ اس مفاد پرستی نے مقامی جنگجو گروہوں کو مزید تقویت دی ہے اور ملک کو ایک لامتناہی جنگ کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ میں نے کئی بار سوچا ہے کہ اگر یہ عالمی طاقتیں واقعی امن چاہتی ہوتیں، تو شاید یہ بحران کبھی کا حل ہو چکا ہوتا۔ ان کے دوہرے معیار کبھی کبھی مجھے مایوس کر دیتے ہیں۔

امن فوج کی حدود اور چیلنجز

اقوام متحدہ کی امن فوج، MONUSCO، دنیا کی سب سے بڑی امن مشنوں میں سے ایک ہے۔ لیکن ان کے کام میں بے شمار چیلنجز ہیں۔ وسیع رقبہ، غیر مستحکم سکیورٹی صورتحال، اور مقامی آبادی کا عدم اعتماد ان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے۔ میں نے کچھ مقامی لوگوں کے تجربات سنے ہیں جو کہتے ہیں کہ امن فوج کی موجودگی بھی انہیں مکمل تحفظ فراہم نہیں کر پاتی، اور بعض اوقات تو وہ خود بھی تنازعات کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ جنہیں امن لانا ہے، وہ خود بھی کبھی کبھار اس کی گہرائی میں کھو جاتے ہیں۔

اقتصادی جدوجہد اور بہتر مستقبل کی امیدیں

کانگو کی معیشت معدنیات پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے، لیکن اس کے باوجود ملک غربت کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معدنیات کی آمدنی عوام تک نہیں پہنچ پاتی بلکہ بدعنوانی اور تنازعات کی نذر ہو جاتی ہے۔ تاہم، مجھے ہمیشہ امید کی کرنیں نظر آتی ہیں۔ اس ملک میں زراعت اور پن بجلی کے بہت بڑے امکانات موجود ہیں جو اگر صحیح طریقے سے استعمال کیے جائیں تو نہ صرف ملک کو خود کفیل بنا سکتے ہیں بلکہ اسے اقتصادی ترقی کی راہ پر بھی ڈال سکتے ہیں۔

معدنیات سے ہٹ کر اقتصادی تنوع کی ضرورت

صرف معدنیات پر انحصار کسی بھی ملک کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے، اور کانگو اس کی بہترین مثال ہے۔ میں نے اقتصادی ماہرین کی رائے پڑھی ہے کہ کانگو کو اپنی زراعت کو فروغ دینا چاہیے، جو ملک کی زیادہ تر آبادی کا ذریعہ معاش ہے۔ وسیع اور زرخیز زمین، اور پانی کے وافر وسائل اسے ایک زرعی پاور ہاؤس بنا سکتے ہیں۔ اگر مقامی کسانوں کو مدد فراہم کی جائے، اور بنیادی ڈھانچے کو بہتر کیا جائے، تو یہ ملک نہ صرف اپنی خوراک کی ضروریات پوری کر سکتا ہے بلکہ اسے برآمد بھی کر سکتا ہے۔ یہ ایک ایسی تبدیلی ہے جس کا میں ذاتی طور پر انتظار کر رہا ہوں۔

بنیادی ڈھانچے کی کمی اور اس کے اثرات

کانگو میں سڑکوں، بجلی اور پانی کی بنیادی سہولیات کی شدید کمی ہے۔ میں نے ایسے علاقوں کے بارے میں پڑھا ہے جہاں لوگوں کو صاف پانی کے لیے کئی میل کا سفر کرنا پڑتا ہے، اور بجلی صرف چند شہروں تک محدود ہے۔ یہ بنیادی ڈھانچہ نہ صرف زندگی کو مشکل بناتا ہے بلکہ اقتصادی ترقی میں بھی رکاوٹ ہے۔ اگر حکومت اور بین الاقوامی ادارے اس شعبے میں سرمایہ کاری کریں، تو یہ ملک کی پسماندگی کو کم کرنے میں ایک کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ بہتر سڑکیں، بجلی اور مواصلاتی نظام لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب لا سکتے ہیں۔

اہم حقائق تفصیل
رقبہ 2.34 ملین مربع کلومیٹر
اہم معدنیات کولٹن، کوبالٹ، ہیرے، سونا، تانبا
آبادی تقریباً 105 ملین (2024 کا تخمینہ)
بے گھر افراد تقریباً 6.2 ملین (دنیا میں سب سے زیادہ)
اہم چیلنجز تنازعات، بدعنوانی، غربت، بنیادی ڈھانچے کی کمی

کانگو کے عوام کی لچک اور ثقافتی ورثہ

کانگو کی تاریخ جتنی المناک ہے، اتنی ہی اس کے عوام کی لچک اور برداشت بھی قابل تعریف ہے۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ اتنی مشکلات کے باوجود، یہاں کے لوگ اپنی ثقافت، موسیقی اور فن سے گہرا لگاؤ رکھتے ہیں۔ یہ ان کی بقا کا ایک اہم حصہ ہے۔ ان کی اندرونی طاقت اور امید، جو انہیں آگے بڑھنے کی ترغیب دیتی ہے، واقعی متاثر کن ہے۔ یہ صرف ایک مشکل میں گھری قوم نہیں، بلکہ یہ ایک ایسی قوم ہے جو اپنے ورثے کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہے۔

موسیقی اور فن: روح کی آواز

کانگو کی موسیقی، جسے عام طور پر “سوکوس” کہا جاتا ہے، عالمی شہرت رکھتی ہے۔ میں نے جب بھی یہ موسیقی سنی ہے، مجھے اس میں ایک عجیب سی توانائی اور روح محسوس ہوئی ہے، جو دکھ کے باوجود امید کا پیغام دیتی ہے۔ یہ صرف دھنیں نہیں، بلکہ یہ کانگو کے لوگوں کی روح کی آواز ہے، جو ان کے درد، ان کی خوشیوں اور ان کی جدوجہد کو بیان کرتی ہے۔ مصوری، مجسمہ سازی اور دیگر فنون لطیفہ بھی یہاں کی ثقافت کا ایک اہم حصہ ہیں۔

برادری اور بقا کا جذبہ

میں نے ایسے واقعات پڑھے ہیں جہاں کمیونٹیز نے ایک دوسرے کی مدد کی ہے، مشکل وقت میں ساتھ کھڑی ہوئی ہیں اور ایک دوسرے کو سہارا دیا ہے۔ یہ بقا کا جذبہ اور برادری کی مضبوطی ہی ہے جو انہیں اتنے طویل عرصے سے جاری تنازعات اور مصائب کے باوجود ٹوٹنے نہیں دیتی۔ یہ صرف ان کی لچک نہیں بلکہ یہ انسانیت کی لچک ہے جو یہ ثابت کرتی ہے کہ انسان کتنی بھی مشکلات میں گھر جائے، وہ پھر بھی امید کا دامن نہیں چھوڑتا۔

امن کی تلاش: چیلنجز اور حل کی راہیں

کانگو میں امن کا قیام ایک طویل اور پیچیدہ سفر ہے۔ اس کے لیے صرف فوجی مداخلت کافی نہیں بلکہ ایک جامع حل کی ضرورت ہے جس میں سیاسی، اقتصادی اور سماجی پہلوؤں کو شامل کیا جائے۔ مجھے لگتا ہے کہ جب تک بنیادی مسائل حل نہیں ہوں گے، مکمل امن قائم کرنا مشکل ہو گا۔ میری نظر میں، عالمی برادری کو اس ملک کے ساتھ مخلصانہ تعاون کرنا چاہیے۔

سیاسی استحکام اور اچھی حکمرانی کی اہمیت

کانگو میں امن کے لیے سب سے اہم چیز سیاسی استحکام اور اچھی حکمرانی ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ بدعنوانی اور کمزور ادارے تنازعات کو مزید ہوا دیتے ہیں۔ اگر حکومت شفاف ہو، عوام کے منتخب نمائندے حقیقی معنوں میں ان کے مسائل حل کریں، اور عدالتوں میں انصاف ہو، تو بہت سے تنازعات خود بخود ختم ہو سکتے ہیں۔ یہ ایک اندرونی تبدیلی ہے جس کی اس ملک کو اشد ضرورت ہے۔

بین الاقوامی تعاون اور ذمہ داری

عالمی برادری کو اپنی ذمہ داری سمجھنی چاہیے اور کانگو کی مدد کے لیے آگے آنا چاہیے۔ یہ صرف مالی امداد نہیں بلکہ یہ اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ معدنی وسائل کی تجارت شفاف ہو اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی واقعی عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہو۔ مجھے امید ہے کہ ایک دن یہ خوبصورت ملک اپنے زخموں سے آزاد ہو کر ایک مستحکم اور خوشحال مستقبل کی طرف گامزن ہو گا۔ یہ صرف کانگو کا نہیں، بلکہ پوری دنیا کا خواب ہے۔

ختم کرتے ہوئے

جمہوریہ کانگو کی کہانی محض اعداد و شمار اور جغرافیائی حقائق کا مجموعہ نہیں، بلکہ یہ انسانیت کی لچک، قربانی اور امید کی ایک کثیر الجہتی داستان ہے۔ میں نے جو محسوس کیا ہے وہ یہ کہ اس ملک کے مسائل جتنے گہرے ہیں، اتنی ہی اس کے عوام کی اپنے بہتر مستقبل کے لیے جدوجہد بھی قابل ستائش ہے۔ جب تک عالمی برادری اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں کرے گی اور معدنیات کی ہوس پر قابو نہیں پائے گی، اس سرزمین پر امن لانا ایک مشکل چیلنج رہے گا۔ میری دعا ہے کہ کانگو کے لوگ جلد از جلد اپنے زخموں سے آزاد ہو کر ایک مستحکم اور خوشحال زندگی گزار سکیں۔

قابل ذکر معلومات

1. جمہوریہ کانگو کا رقبہ مغربی یورپ کے تقریباً برابر ہے اور یہ افریقہ کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔

2. دنیا کا سب سے بڑا کوبالٹ کا ذخیرہ کانگو میں پایا جاتا ہے، جو بیٹریوں اور الیکٹرانکس میں استعمال ہوتا ہے۔

3. کانگو دریائے کانگو کے گھر ہونے کی وجہ سے ہائیڈرو پاور کی بے پناہ صلاحیت رکھتا ہے، جو پورے افریقہ کو بجلی فراہم کر سکتا ہے۔

4. ملک میں مختلف قسم کے قبائل اور زبانیں ہیں، لیکن فرانسیسی سرکاری زبان کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔

5. اقوام متحدہ کی امن فوج MONUSCO 1999 سے کانگو میں تعینات ہے، جو دنیا کے سب سے بڑے اور طویل ترین امن مشنوں میں سے ایک ہے۔

اہم نکات کا خلاصہ

کانگو قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود سیاسی عدم استحکام، تنازعات اور انسانی بحران کا شکار ہے۔ ہیرے، کولٹن اور کوبالٹ جیسے معدنیات عالمی ہوس کا نشانہ بن رہے ہیں، جس سے لاکھوں لوگ بے گھر اور متاثر ہیں۔ خواتین اور بچے خاص طور پر تشدد کا شکار ہیں۔ بین الاقوامی مفادات اور اندرونی بدعنوانی حالات کو مزید پیچیدہ بناتی ہے۔ امن کے لیے سیاسی استحکام، اچھی حکمرانی اور عالمی برادری کے مخلصانہ تعاون کی ضرورت ہے تاکہ یہ ملک اپنی لچک اور ثقافتی ورثے کے ساتھ خوشحال مستقبل کی طرف بڑھ سکے۔

اکثر پوچھے گئے سوالات (FAQ) 📖

س: جمہوریہ کانگو قدرتی خزانوں سے مالا مال ہونے کے باوجود دہائیوں سے سیاسی عدم استحکام، تنازعات اور انسانی دکھوں کا شکار کیوں ہے؟

ج: جب میں نے پہلی بار جمہوریہ کانگو کے بارے میں پڑھا، تو مجھے سب سے پہلے یہ بات حیران کن لگی کہ یہ سرزمین دنیا کے قیمتی ترین معدنیات جیسے کوبالٹ، کولٹن، ہیرے اور سونا سے مالا مال ہونے کے باوجود اتنی زیادہ غربت اور تنازعات کا شکار کیوں ہے؟ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے یہ ایک بہت ہی تلخ سچائی ہے کہ یہی وسائل اس کے لیے ایک لعنت بن گئے ہیں۔ میری سمجھ کے مطابق، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان وسائل پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے نہ صرف مقامی مسلح گروہ آپس میں لڑتے ہیں، بلکہ غیر ملکی طاقتیں اور ان کی حمایت یافتہ کارپوریشنز بھی اس خون ریزی میں شامل ہیں۔ نوآبادیاتی دور کی گہری جڑیں اور بعد ازاں کمزور حکومتی ڈھانچہ نے اس صورتحال کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ میں نے جو محسوس کیا ہے وہ یہ کہ جب لوگوں کی بنیادی ضروریات پوری نہ ہو رہی ہوں اور زمین کے نیچے سے اربوں ڈالر کے خزانے نکل رہے ہوں، تو یہ صورتحال کسی بھی معاشرے کو گہری دلدل میں دھکیل سکتی ہے۔ یہ صرف ایک سیاسی مسئلہ نہیں، بلکہ انسانیت کے ایک بڑے سانحے کی کہانی ہے جہاں وسائل کی فراوانی ہی دکھوں کا باعث بن گئی ہے۔

س: اس خطے میں لوگوں کی نہ ختم ہونے والی جدوجہد، پختہ ارادے اور امید کی کہانی کس حد تک سچائی پر مبنی ہے، اور کیا ہم واقعی اس سے کچھ سیکھ سکتے ہیں؟

ج: میرے خیال میں جمہوریہ کانگو کے لوگوں کی جدوجہد اور ان کی امید کی کہانی ہی وہ چیز ہے جو مجھے اس سرزمین سے جوڑے رکھتی ہے۔ میں نے جب ان کی داستانیں سنیں اور ان پر لکھی کتابیں پڑھیں تو مجھے ایسا لگا جیسے انسانی ارادے کی کوئی حد نہیں۔ یہ لوگ سالوں سے جنگوں، نقل مکانی، بھوک اور بیماریوں کا سامنا کر رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود ان کے چہروں پر ایک عجیب سی پر عزم مسکراہٹ ہوتی ہے، اور آنکھوں میں ایک نئی صبح کی امید جھلکتی ہے۔ مجھے یاد ہے ایک رپورٹ میں نے پڑھی تھی جہاں ایک خاتون اپنے بچوں کے ساتھ مائلوں پیدل سفر کر کے ایک کیمپ پہنچی تھی، اور اس کا کہنا تھا کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم دلوانا چاہتی ہے تاکہ وہ بہتر زندگی گزار سکیں۔ یہ بات مجھے بہت متاثر کن لگی۔ یہ کہانی صرف دکھ کی نہیں بلکہ ناقابل تسخیر انسانی روح کی ہے جو ہمیں سکھاتی ہے کہ مشکل حالات میں بھی ہار نہیں ماننی چاہیے۔ ان کی ہمت اور برداشت ایک ایسا سبق ہے جو ہم سب کو سیکھنا چاہیے۔ میں نے دل سے محسوس کیا ہے کہ ان کا جذبہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ روشنی ہر اندھیرے کے بعد آتی ہے، چاہے وہ کتنی ہی دیر کیوں نہ لگائے۔

س: حالیہ عالمی صورتحال اور خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی جمہوریہ کانگو کے پیچیدہ حالات کو مزید کیسے بڑھا رہی ہے؟

ج: جب میں حالیہ عالمی صورتحال اور جمہوریہ کانگو پر اس کے اثرات کا جائزہ لیتا ہوں، تو مجھے ایک گہری تشویش ہوتی ہے۔ آج کل دنیا بھر میں بجلی سے چلنے والی گاڑیوں (EVs) اور سمارٹ فونز کی مانگ بہت بڑھ گئی ہے، اور ان کی بیٹریوں کے لیے کوبالٹ جیسے معدنیات کی اشد ضرورت ہے۔ جمہوریہ کانگو کوبالٹ کا سب سے بڑا عالمی ذخیرہ رکھتا ہے۔ میری سمجھ میں یہ بات آئی ہے کہ یہ عالمی مانگ خطے میں پہلے سے موجود تنازعات کو مزید ہوا دے رہی ہے۔ غیر ملکی طاقتیں اور ملٹی نیشنل کمپنیاں بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر مقامی مسلح گروہوں کو سپورٹ کرتی ہیں تاکہ انہیں ان وسائل تک رسائی حاصل رہے۔ یہ صرف ایک تجارتی معاملہ نہیں، بلکہ یہ بات انسانی جانوں کی قیمت پر ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ، پڑوسی ممالک کے اندرونی تنازعات اور وہاں سے پناہ گزینوں کی آمد بھی کانگو پر شدید دباؤ ڈالتی ہے، جس سے انسانی بحران مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم سب جو ان مصنوعات کا استعمال کر رہے ہیں، کہیں نہ کہیں اس پیچیدہ صورتحال کا حصہ بن رہے ہیں، اور اس پر سوچنا بہت ضروری ہے۔ یہ حالات دکھ اور ناامیدی کو مزید بڑھا رہے ہیں، اور ایک پائیدار حل کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ محسوس ہو رہی ہے۔